Translate

Friday, October 21, 2011

جب شعیب اختر غربت کیوجہ سے لاهور میں فٹ پاتهه پر سویا



شیعب اختر نے اپنی متنازعہ کتاب
Controversially Yours میں ایک بہت هی زبردست واقعہ بیان کیا هوا هے جو لاہور کے ایک ٹانگے والے سے منسلک ہے کہ کیسے اس نے ایک رات خالی جیب شیعب اختر کو نہ صرف اپنی مزدوری سے کھانا کھلایا تھا بلکہ اپنے ساتھ فٹ پاتھ پر سلایا تھا اور اگلی صبح ماڈل ٹاؤں سٹیڈیم بھی چھوڑنے گیا تھا جہاں پی آئی اے کی ٹیم کے لیے ظہیر عباس ٹرائل لے رہے تھے۔ شیعب اس واقعہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ وہ ایک اچھا طالبعلم تھا اس لیے اس کا خاندان چاہتا تھا کہ وہ اپیی تعلیم جاری رکھے لیکن اس کے یوتھ ٹیسٹ اور ون ڈے انٹرنیشنل ڈیبو نے اسے یہ احساس دلا دیا تھا کہ کرکٹ اب اس کی واحد دلچسپی تھی۔ شیعب لکھتا ہے کہ:
’مجھے پتہ تھا کہ میں اب پروفیشنل گیم کھلینا چاہتا تھا اس لیے میری کالج میں حاضریاں کم ہوتی چلی گئیں۔ میرے لیے اپنے گھروالوں کو منانا آسان کام نہیں تھا۔ مجھے یہ بھی علم تھا کہ مجھے اب ایک نوکری کی ضرورت بھی تھی تاہم ابھی تک کوئی ایسی نوکری نہیں ملی تھی جس میں مجھے دلچپسی محسوس ہوتی۔ ایک دن میرے دوست اعجاز ارشد نے مجھے بتایا کہ پاکستان ائر لائنز لاہور میں ٹرائل منعقد کر رہی تھی تاکہ وہ اپنی کراچی ڈویزن ٹیم کے لیے کھلاڑی چن سکیں۔ یہ میرے لے بہترین حل تھا۔ ایک ایسی نوکری جو میں واقعی کرنا چاہتا تھا۔ یوں میں نے اپنی قسمت آزمائی کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے ایک بیگ پکڑا اور اعجاز کو قائل کر لیا کہ وہ میرے ساتھ لاہور چلے اور ہم لاہور کی بس پکڑنے کے لیے چل پڑے۔
ہم نے بس کی ٹکٹ نہیں خریدنی تھی کیونکہ ہم دونوں کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے۔ اس لیے ہم نے بس کے چلنے کا انتطار کیا اور جونہی اس کی رفتار تیز ہوئی ہم دونوں دوڑ کر اس کے پیچھے لٹک کر اس کی چھت پر چڑھ گئے۔ کنڈیکٹر بہت سیانا تھا اور وہ مسلسل یہ چیک کر رہا تھا کہ کوئی کمپنی کے خرچے پر مفت کا سفر تو نہیں کررہا۔ سات گھنٹے کا وہ سارا سفر ہمارا اس بس کنڈکڑ کو ڈاج کرانے میں گزرا۔ وہ ایک سائیڈ سے اوپر اپنا سر باہر کی جانب نکال لیتا اور ہم دوسری طرف جھک جاتے۔ ہر بس سٹاپ سے پہلے ہم اتر جاتے اور جونہی بس دوبارہ چلنے لگتی ہم دوڑ کر اس پر چڑھ جاتے۔ مجھے یہ سفر اچھی طرح یاد ہے کیونکہ کنڈیکڑ نے اس طرح تہیہ کیا ہواتھا کہ اس نے ہم سے کرایہ وصول کرنا ہے جیسے ہم نے سوچا ہوا تھا کہ ہم دونوں نے نہیں دینا اورہم نے مفت سفر کرنا ہے۔
اس طرح ہم شام تک لاہور پہنچ گئے۔ لیٹ پہنچے پر ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا کہ اب ہم کہاں رات بسر کریں گے۔ ٹرائل اگلی صبح ہونے تھے اس لیے ہمیں رات گزارنے کے لیے کسی چھت کی ضرورت تھی۔ میری جیب میں بارہ روپے جب کہ اعجاز کے پاس تیرہ روپے تھے۔ یوں دونوں کے ملا کر پچیس روپے بنتے تھے اور ہمیں پتہ چلا کہ ایک رات کسی سستے ہوٹل میں اتنے روپوں کی ضرورت تھی۔ تاہم اگر ہم رات بسر کرنے کے لیے یہ پیسے خرچ کر دیتے تو پھر ہمیں اپنا رات کا کھانا قربان کرنا پڑتا جو ہم دونوں نوجوان لڑکوں کے لیے ممکن نہ تھا۔ اعجاز اس صورت حال سے بہت پریشان ہو گیا تاہم میں بڑے سکون میں تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں رات گزارنے کے لیے کسی ٹانگے والے کے ساتھ جگہ ڈھونڈ لوں گا۔
میں نے ٹانگہ دیکھا جو کہ نیا لگ رہا تھا اور اس کے کوچوان کے پاس گیا اور سلام کہا۔ میں چاہتا ہوں کہ اپ مجھے اج رات کا کھاناکھلائیں۔ اس نے پوچھا تم کون ہو۔ میں نے اسے بتایا کہ میں پنڈی کا ایک کرکٹر ہوں۔ کیا تم پاکستان کرکٹ کے لے کھلیتے ہو۔ اس نے فورا پوچھا۔ میں نے کہا اللہ کرے کہ یہ بھی ایک دن ہوگا لیکن اس وقت میں تمہارے سامنے کھڑا ہوں۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ وہ میری بات سن کر مسکرا پڑا تھا اور پوچھنے لگا کہ وہ میرے اوپر کیوں یہ مہربانی کرے۔ میں نے اسے جواب دیا کہ جب میں پاکستان کرکٹ ٹیم میں کھلیوں گا تو اس سے ملنے کے لیے آؤں گا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ واقعی تم اس بات پر یقین رکھتے ہو کہ ایک دن تم پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے کھیلو گے۔ میں نے کہا بالکل اور اسے کہا کہ میری آنکھوں میں دیکھو، تمیں سب کچھ نظر اجائے گا۔ ٹانگے والا بولا تو پھر ٹھیک ہے کہ یہ ڈیل ہے۔ اس طرح میں نے عزیز خان کو اس بات پر بھی راضی کیا کہ کہ وہ ہمیں اپنے ساتھ سونے کی جگہ بھی دے۔ اس رات میں سکون سے لاہور کے فٹ پاتھ پر ٹانگے والے کے ساتھ سویا۔
اگلی صبح عزیز خان نے مہربانی کی اور ہمیں ٹانگے پر ماڈل ٹاؤن کے گراونڈ تک چھوڑ آیا جہاں ٹرائل ہونے تھے۔ ٹانگے صرف مال روڈ تک جا سکتے تھے اور ہم وہیں اتر گئے۔ میں نے ٹانگے والے عزیز خان سے اپنا وعدہ دہرایا کہ میں جب بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کا ممبر بنوں گا اس سے ملنے آؤں گا اور اگر اس نے کبھی یہ سنا کہ کوئی کھلاڑی اسے ڈھونڈ رہا تھا تو وہ سمجھ جائے کہ یہ میں تھا۔ نام یاد رکھنا، میں نے اسے بتایا۔ وہاں سے دوگھنٹے پیدل چلنے کے بعد ماڈل ٹاؤن کے گراؤنڈ پہنچ گیا۔
اور جب مجهه پر ہر طرف سے پیسوں کی بارش ہونے لگی اور میں اشتہاروں کی مدد سے اپنا پنڈی کا گھر بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ تو میں نے ابھی ایک وعدہ پورا کرنا تھا۔
پهر ایک دن میں بهیس بدل کر لاهور پہنچا ایک وہگ اور عینک پہن کر میں داتا دربار گیا اور وہاں شکرانے کے نفل ادا کیے اور اس کے بعد ریلوے اسٹیشن کی طرف نکل گیا تاکہ اسی ٹانگے والے عزیز خان کو تلاش کروں جس نے چھ سال قبل مجھے فٹ پاتھ پر سونے کے لیے اپنے ساتھ جگہ دی تھی۔
مجھے اسے تلاش کرنے میں خاصا وقت لگ گیا۔ تاہم آخر میں نے اسے ڈھونڈ لیا۔ وہ ایک کونے میں سو رہا تھا۔ جب میں نے اسے اٹھایا تو وہ ڈر سا گیا۔ جب اس نے پوری طرح اپنی آنکھیں کھول لیں تو میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا میں تینوں کہیا سی جدوں میں پاکستان کرکٹ ٹیم دا کھلاڑی بنا ں گا تے میں اواں گا۔ اس نے ایک جمپ لگایا اور ایک بچے کی طرح میرے بازوں میں آگیا اور مجھے گلے سے لگا لیا اور منہ میں میرے لیے دعائیں کرتا رہا۔
وہ بڑی دیر تک ایک ہی بات کرتا رہا کہ اسے یقین نہیں آرہا کہ یہ میں شیعب اختر ہی تھا۔ کچھ دیر کے بعد ہم چائے پینے کے لیے قریبی دوکان پر گئے۔ ا س دوران وہ خدا کی شان پر حیران ہوتا رہا اور کہتا رہا کہ معجزے اس طرح ہوتے ہیں اور آپ بھی ان معجزوں میں سے ایک ہو۔ اس نے بتایا کہ یہ بات اس کے لیے ایک خواب کی طرح تھی کہ جو بندہ اس کے ساتھ فٹ پاتھ پر سویا تھا وہ آج پاکستان کا سب سے زیادہ چاہا جانے والا شخص تھا۔
اتنی دیر میں ہجوم اکھٹا ہونا شروع ہو گیا تھا اور ریلوے اسٹیشن کو واقعتا بند کرنا پڑا۔ اس نے ان کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ آپ کو کتنے لوگ جانتے ہیں اور وہ آپ کو اپنے گھر لے جانے کے لیے بے چین ہیں۔ میں نے کہا، ہاں لیکن تم وہ شخص تھے جس نے مجھے اس وقت پناہ دی جب مجھے کوئی نہیں جانتا تھا اس لیے تم واحد شخص ہو جسے میں جانتا ہون اور میں یہاں صرف تم سے ملنے آیا ہوں۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ اس کی جیب میں کچھ روپے ڈال دوں لیکن اس نے وہ رقم مجھ سے نہیں لی۔ عزیز خان دنیا کی آنکھوں میں ایک غریب آدمی تھا لیکن میرے لیے وہ عزت نفس اور عظمت کا شاہکار تھا۔ اسی رات ہم دونوں نے دوبارہ کھانا کھایا اور اس نے کھانے کے پیسے خود دیے۔ وہ بولا کہ اس دن بھی میں نے تجھے کھانا کھلایا تھا اور آج بھی میں ہی کھلاؤں گا۔ اس دن بھی تو میرے لیے شیعب تھا اور میں چاہتا ہوں کہ تو ہمیشہ شیعب ہی رہے کبھی بھی نہ بدلنا۔
اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں اس کے ٹانگے کی سواری کروں گا۔ میں نے کہا کیوں نہیں۔ یوں ہم دونوں نے وہی روٹ لیا جو چھ سال قبل استعمال کیا تھا جبمیں پی آئی اے کے لیے ٹرائل دینے کے لیے آیا تھا۔ عزیز خان میرے ساتھ رابطے میں رہا جب تک وہ چار سال قبل فوت ہوگیا۔